متحدہ عرب امارات یونیورسٹی (یو اے ای یو) نے کورونا وائرس سے نجات کے لیے الیکٹریکل ماسک کے لیے پیٹنٹ رجسٹر کر لیا ہے۔ اس عالمی وباء نے بالخصوص حفاظتی ملبوسات جیسے فیس ماسک اور دیگر حفاظتی پوشاک کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے جو عوام کو وائرس سے تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ کچھ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی شخص کے کوویڈ19 کا شکار ہونے کے لیے چند سو سے لے کر چند ہزار تک کورونا وائرس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دیگر تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 10 سے کم وائرل ذرات بھی اس انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ماسک اور حفاظتی آلات پر جمع وائرس بعد میں صارف کے ہاتھوں یا کپڑوں پر منتقل ہو جائیں اور اس کے نتیجے میں انفیکشن ہو جائے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حفاظتی ملبوسات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان میں کسی بھی قسم کی بہتری کا مطلب زندگی اور موت کے درمیان فرق بھی ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمود الاحمد کی قیادت میں متحدہ عرب امارات یونیورسٹی میں محققین کی ایک کثیر الشعبہ ٹیم اس چیلنج سے نمٹ رہی ہے۔ انہوں نے ایک ایسا آلہ تیار کر کے پیٹنٹ کیا ہے جس میں کم وولٹیج کی توانائی سے چلنے والے دو لچکدار گرافین الیکٹروڈز ہیں۔ یہ دونوں الیکٹروڈز اس طرح ست ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ مختلف الیکٹروڈ کے درمیان ایک جیسی جگہیں موجود ہیں۔ یہ فریکٹل اور انٹرڈیجیٹڈ سطح کے رقبے کو بڑھاتے اور آنے والے وائرس کو جگہ فراہم کرتے ہیں۔ ڈیوائس کو فیس ماسک سمیت کسی بھی حفاظتی ملبوسات کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے۔ اس آلہ میں خالی جگہیں اتنی زیادہ ہیں کہ اسے استعمال کرنے والے کو سانس لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے۔ ی جب آلہ چلتا ہے، تو ایک الیکٹروڈ مثبت طور پر چارج ہوتا ہے اور دوسرا الیکٹروڈ منفی طور پر چارج ہوتا ہے جس سے الیکٹرک فیلڈ پیدا ہوتا ہے جو خالی جگہوں یا آس پاس موجود وائرس کو کرنٹ سے یا تو مکمل تباہ کر دیتا ہے یا ناکارہ بنادیتا ہے۔
ایسوسی ایٹ پرووسٹ برائے تحقیق یو اے ای یونیورسٹی پروفیسر احمد علی مراد نے کہا ہے کہ یونیورسٹی بہت سے شعبوں میں جدت کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ دفتر میں پیٹنٹ اور انٹلیکچوئل پراپرٹی یونٹ کے ذریعے یونیورسٹی، محققین اور فیکلٹی ممبران کے خیالات کی حمایت کرتی ہے اور نظریات کو محفوظ کرنے اور محققین اور یونیورسٹی کے حقوق کو الیکٹرانک سسٹم کے ذریعے رجسٹر کرنے میں تعاون کرتی ہے جو محقق کو آئیڈیا پیش کرنے کی اجازت دیتی ہے اور پھر سائنسی طور پر اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ قانونی طور پر آئیڈیے کو 7 ماہ کی مدت کے اندر پیٹنٹ دینے کی اجازت دیتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پیٹنٹ یونیورسٹی کی عالمی صحت کے چیلنجز خصوصاً وائرس کے پھیلاؤ اور صحت عامہ کے تحفظ سے متعلق بہترین حل تلاش کرنے کی کوششوں کے حصے کے طور پر سامنے آیا ہے کیونکہ صحت تحقیقی ترجیحات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کمیونٹی کی صحت کے تحفظ کے لیے قومی کوششوں کو تقویت دینے میں اپنا حصہ ڈالنے پر فخر اور خوشی ہے اور ہم اگلے قدم کے طور پر اس پیٹنٹ کی مارکیٹنگ شروع کریں گے۔
متحدہ عرب امارات یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر محمود الاحمد نے کہا یہ کام سائنسی افراد کے لیے دلچسپی کا باعث ہے کہ اس سے کوویڈ19 پر قابو پانے کے لیے جدید حل کی طرف قدم بڑھے گا۔