نیو یارک یونیورسٹی ابوظہبی (این وائی یو اے ڈی) کی جانب سے کوویڈ-19 کے بارے میں کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق ملک بھر میں سماجی فاصلے کے اقدامات کے نتیجے میں عام آبادی میں ذہنی اضطراب میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تحقیق میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ خواتین سربراہان مملکت اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں کوویڈ-19 پابندیوں پر عمل درآمد کرنے کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ یہ ان نتائج میں سے ایک ہے جن کی محققین نے اپنے جاری مطالعے سے اب تک نشاندہی کی ہے جس کا مقصد پالیسیوں کی ترقی میں اضافے کو یقینی بنانے کے لئے حکومتوں کو اس وباء اور اس کے اثرات سمجھنے میں مدد کرنا ہے۔
این وائی یو اے ڈی میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر رابرٹ کوبینک اور جوان بارسیلو اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا اور دیگر اعلیٰ عالمی تعلیمی اداروں کے دس دیگر محققین کی ایک ٹیم نے تحقیقات سے یہ جانا کہ کاروباری پابندیاں اور سماجی فاصلے کے اقدامات عام اضطراب میں کمی کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ ہیں۔ یہ نتائج سوکارکسیف نامی ایک کھلے آرکائیو پلیٹ فارم میں شائع کیے گئے تاکہ دنیا بھر کے ماہرین تعلیم اپنی تحقیق کے لئے اس ڈیٹا بیس کا استعمال کر سکیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ اسکول کی پابندیاں، گھر سے باہر کے لوگوں کے ساتھ ذاتی رابطے کی شرح، آمدنی میں عدم مساوات کی سطح اور بیوروکریٹک کرپشن سے وابستہ ہیں۔ یہ نتائج کورونانیٹ سے اخذ کیے گئے ہیں جو ایک آن لائن ڈیٹا بیس ہے، جو محققین کو جامع کوویڈ-19 پالیسی ڈیٹا سیٹوں یعنی کورونا نیٹ کوویڈ-19 گورنمنٹ رسپانس ایونٹ ڈیٹا سیٹ اور آکسفورڈ کوویڈ-19 گورنمنٹ رسپانس ٹریکر سے پالیسی ڈیٹا کو یکجا کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ ڈیٹا کارنیگی میلن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف میری لینڈ کی جانب سے فیس بک پر کیے گئے وسیع پیمانے پر سروے سے مربوط تھا جو شہریوں کے جذبات کا اندازہ لگانے اور خطرے کے عوامل کے بارے میں زیادہ جامع نقطہ نظر فراہم کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔